مطابقت کا اصول  
 

محترم ناظرین اکرام

ہماری ویب سائٹ کے ہم پیج پر حالیہ شائع کردہ مواد کی نسبت لوگوں میں غلط فہمی کا ازالہ کردینا ہم ضروری سمجھتے ہیں جو ہمارے موقف اور ہمارے اہم ترین اصولوں میں پیدا ہو سکتا وہ اصول جس سے ہم مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں اور جس کی جڑ اور بنیاد خود فرقان ( قرآن مجید)ہے اگر دین کے نام پر کوئی بھی چیز قرآن پر غیر واضح یا متصادم پائی جانے بلخصوص جب محکم آیات اس کی کھلی تردید کرتی ہواور نا ایسا خیال جو اپنے فلسفہ سے قرآن سے منحرف کرتا ہو تو ہم اس ( عقیدے روایت حدیث کے نام پر گھڑھی ہوئی بات فتویٰ یا پیمانے کو غلط جھوٹ اور اس کی اصل سے قطع نظر سمجھتے ہیں ہم اس بات پر بھی پختہ ایمان اور یقین رکھتے ہیں کہ نبی مہدی اور آپ کے بلند مقام اصحاب تابعین یا پیروکاروں نے کبھی کوئی ایسی بات کہی یا لکھی ہواورنا ہی کوئی عمل ایسا کیا ہو یا بعد آنے والوں کے لیے ایسا عقیدہ اپنے پیچھے چھوڑا ہوجو قرآن مجید سے براہ راست ٹکراتا ہواگر ان بزرگوں کے نام کے نام سےہم تک کوئی ایسا مواد پہونچھتا ہےیا ان سے منسلک اور منسوب شدہ ہو وہ صحیح نہیں ہے اور یقنا وہ باران سے ہر گز صادر نہیں ہو سکتی جب عمومی طور پر قرآن گزشتہ آسمانی کتابوں پر فرقان ہے اور بلخصوص مہیمین ہے تو ظاہر ہے اس اعتبار سے قرآن تمام نوع انسانی اور اس کی خواہشات پر نہایت شد و مد سے ایک فرقان اور مہیمین کی حیثیت رکھتا ہے جو تا قیامت جاری رہیگا کہنے کی حاجت نہیں ہے کہ ہر ایک لیے قرآن صداقت یا کذب کی کسوٹی ہے اگرچیکہ نفس قرآن کافی ہے لیکن یہ مطابقت کا اصول ہمارے نقلیات اور دیگر تصانیف میں دہرایا گیا ہے جس کے حوالے نیچے دیئے جا رہے ہیں جو ہم سب کے لیے فایدہند رہیگا

جب تمہارے پاس میری کوئی حدیث اے تو ایسے خدا،کی کتاب قرآن پہ پیش کرو اگر اس سے موافقت کرتی ہے تو قبول کرو اگر مخالفت کرتی ہے تو چھوڑ دو میرے بعدجھوٹی حدیثیں پھیلا ئ جائینگی اس لیے جو حدیث تمہارے پاس آئے اس کا موازنہ خدا کی کتاب قرآن کے ساتھ کرو

تبصرہ
یہ مطابقت کے اصول اور کسوٹی والی حدیث اپنی جگہ کہیں نہیں بنا پائے حتکہ عالم طور پہ سنی اسلام میں بدرجہ اتم مقبول سمجھی جانے والی کتب صحاح ستہ میں بھی نہیں اور دیگر دو کتب مؤطا اور مسند احمد کے نام سے معروف ہیں ان دو احادیث کو اپنے اوراق میں درج کیں اور اہل سنت الجماعت کے علماء نے تو یہ دوکسوٹی والی احادیث کو ضیعف قرار دیتے ہیں یہ سب محدیثین نقاد اور احادیث کی سائنس کے ماہرین نے کبھی قرآن مجید کواپنی سند کے لیے تنقید اور تشخیص کے معیار میں شامل تک نہیں دکھا

عقیدہ شریف
اور جس نے کہ احدیث نبویہ کوحجت گردانا تو جواب" فرمایا کہ احادیث میں اختلاف بہت ہےان کی تصحیح مشکل ہے جو حدیث خدا کی کتاب اور بندہکےحال سے موافق ہو وہ صحیح ہے چنانچہ آنحضرت نے فرمایا کہ میرے بعد قریب میں تمہارے لئے احادیث بہت ہونگے پس تم ان کو کتاب اللہ پر پیش کرو اگر موافق ہے تو قبول کرو ورنہ رد کردو

تبصرہ
قوم مہدویہ میں سب سے پہلے اس کام کو بندگی میاں رض نے انجام دیا ہےآپ نے راست امامنا مہدی موعود سے سنکریہ حدیث قلمبند فرمائی جو سنی محدثین کا کھلا انکار اور مکمل رد ہے بلکہ ان کے کسی بھی حدیث کو پرکھنے اسکی درجہ بندی اور پرکھنے اور قبولیت کا جو اصول معیار انہوں نے بنایا تھا اس کو بلکل مسترد کر دیتی ہے جس حدیث( یعنی میی حدیث کو کتاب اللہ پہ پیش کرو) کو وہ ہزار سال سے رد کرتے ا رہے تھے امامنا مہدی علیہ السلام نے اسی حدیث کو بلکل صحیح قرار دیا بلکہ کسی بھی حدیث کی صحت جانچنے اور قبول کرنے کا واحد طریقہ بتادیا ان سنی محدثین کی جنوں کی حدوں پہونچے ہوےصرف رجال اور اسناد پر مبنی اصول حدیث کوصرف اورف متن کو لیکر تہ و بالا کردیا ناصرف حدیث کے اصول اور صحت میں ان کے نقص کو منظرعام پر لایا بلکہ بندگ میاں نے انکے حدیث کے متن کو سمجھنے کے کام اور کج فہمی کو بھی ایک مشال دیکر اپنے اس رسالے عقیدہ شریف میان تمام سنی محدثین کو بے نقاب کر دیا کوئ بھی صاحب سمجھ شخص اس نتیجہ پرہرگز نہیں پہونچے گانے امامنا یا آپ کے صحابہ نے اہل سنت الجماعت کےبگڑے ہوے بدعقیدہ اور منحرف طرز عمل کی کبھی بھی منظوری دی ہو

نقلیات ( میاں عبد الرشید رض)
حضرت مہدی علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص میری نقل بیان کرے اگروہحق تعالیٰ کے کلام کے موافق ہے تو وہ نقل درست ہے اگر اللہ کے کلام کے موافق نہیں ہے تو وہ میری نقل نہیں ہے یا (سمجھ لیا جائے کہ) سننے کے وقت ناقل کادل حاضرنارہا ہوگا جس کی وجہ سے سہو ہو گیا ہے

روایت ہےکہ مقام خراسان میں جو لوگ احادیث پر بحث کرتے اور کہتے کہ میرانجی ان احادیث مہدی کی جو نشانیاں بیان ہوئی ہیں خوندخار میں نہیں جا رہی ہیں آپ نے فرمایا کہ احادیث میں بہت اختلاف ہے سقیم سے صحیح کو الگ کرنامشکل ہے جو حدیث کہ خدا تعالٰیٰ کی کتاب اور بندہ کے حال کے موافق پاؤ تو قبول کرو ورنہ چھوڑ دو

تبصرہ
سب سے پہلے امامنا کے نقلیات کو جس ہستی نے مرتب فرمایا وہ آپ کے صحابی ہیں اور انہوں نے اپنے اس کام کی شروعات ہی امامنا کے اس نقل سے کی جو کسی بھی نقل کی صحت اور جانچنے کا بنیادی اصول ہے اور ا گلی دوسرے نمبر پر حدیث پرکھنے کی کسوٹی والی حدیث کو رکھا کیا یہ محض اتفاق ہےکہ آپ راضی اللہ تعالیٰ نے بنا کسی حکمت کے ان روایتوں کو سر ورق رکھ کر اور اس کتاب کاسر تاج بنا کر اپنے شاہکار کی ابتدا کی ؟ جبکہ صیحہ ستہ کے ہر مؤلف نے اپنی کتب احادیث میں اس حدیث کو بلکل فراموش اور نظر انداز کر دیا اس سے یہ بات بھی صاف ہو گئی اور مشال قائم کردی ہے کہ نو تشکیل شدہ قوم مہدویہ اہل سنت الجماعت کے غلط طریقے کار سے واضح علیحدگی پر مبنی ہے

انصاف نامہ
نقل ہے کہ حضرت مہدی موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص بندہ سے نقل کرے تو چاہیے کہ اس نقل کو دیکھے اگر خداے تعالیٰ کے کلام کے موافق ہے تو وہ نقل بندہ سے ہے اور اگر موافق نہیں ہے تو وہ نقل بندہ سے نہیں ہے یا وہ شخص ہماری بات کو سمجھ نا سکا چنانچہ بندگی میاں سید خوندمیر رض نے عقیدہ شریف میں فرمایا ہےکہ احادیث میں اختلاف بہت ہے اسکی صحت مشکل ہے حضرت مہدی نے فرمایا کہ جو حدیث کہ خدانے تعالیٰ کی کتاب اور اس بندہ کے حال کے موافق ہو وہی صحیح ہے چنانچہ آنحضرت نے فرمایا کے میرے بعد تمہارے لیے حدیثیں بہت ہو جائینگی تم ان کو کتاب اللہ پہ پیش کرو اگر موافق ہے تو قبول کرو ورنہ رد کرو نیز آنحضرت نے فرمایا کہ عنقریب میرے بعد حدیثیں بہت ہو جائینگی پس جو حدیث قرآن شریف کے موافق ہو تو میری حدیث ہے میں نے کہا ہے یا میں نے نہیں کہا ہے اور جو قرآن شریف کے مخالف ہوتا مجھ سے نہیں ہے اور میں قرآن شریف کے خلاف کس طرح کہوں گا

تبصرہ
دوسری نقلیات ( انصاف نامہ) کی تالیف امامنا کے تابعی نےادا کی جنہیں حضرت بندگی میاں کی صحبت کاشرف حاصل تھا آپ نے بھی یہی حدیث اور نقل اپنی مؤلفہ کتاب کےتعرف کےصحفہ میں بطور اصول پیش کردی یہ اس بات کا ثبوت ہےکہ مہدویہ قوم( جو کے ابھی اپنے ابتدائی زمانے میں تھی) اس بات کی بالکل پرواہ کیئے بنااپنے موقوف اہل سنت الجماعت پر طاہر کرچکی تھی جب کہ ان کہ علماء سو نے اس حدیث کو اس قدر نظر انداز کر دیا کہ ایسے کسی درجے میں شمار کرنا بھی گنوارہ نہیں کیا

سراج الابصار
بلکہ مہدی علیہ السلام نے قرانکواصل قرار دیا ہے پس مذہب مختلیفہ کے احکام میں جو چیزیں قرآن کے موافق ہوئی اس کومہد ی موعود نے درست اور حسن فرمایا اور جو قرآن کے موافق نا ہوئیں اس کو درست نہیں رکھا اور یہی مہدی کا منصب ہے کیونکہ اس اس کی صفت میں حدیث میں وارد ہوا ہے کہ مہدی دین کو قائم کریگا آخری زمانے میں جیساکے میں نے قائم کیا دین کو اول زمانے میں

تبصرہ
یہ کتاب( سراج الابصار) اہل سنت الجماعت کے ایک ملا کامنہ توڑ جواب ہے جس نے ہمارے عقائد اور افعال پرحملہ کیاتھا حضرت بندگی میاں سجاوندی عالم بل اللہ رح کی یہ کتاب اس بات کا بین ثبوت ہے کہ تبع تابعین کے دور ( یعنی تین نسلوں) تک بھی ہمارا مذہب کیاتھا پھر وہ چاہے ایما اربعہ کے مذہب سے بحث ہو یا فروعی معاملات میں ہمارے ہر دینی معاملے کی تطبیق قرآن مجید پر ہی ہوا کرتی تھی ورنہ کیسے جان پاتا کہ کس کا مذہب اعلیت پر ہے

اختتامی تبصرہ
واضح رہے کہ ہوم پیج کا مواد ناتو نیا ہے اور ناہیاا قسم کی کاوش پہلے کسی نے نہیں کی بلکہ ہماری نیت اوراعجزنہ کلم اللہ سے مرسلین سےان کے اصحاب سے اور ان تمام بزرگون دین سےہم آہنگی کرنا ہے جنہوں نے قرآن کو بطور فرقان (حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب)اورمہیمین نگداشت مانا ہے جیسے کہ ہم اوپر انہی کے صادق صریح الفاظ میں دیکھ چکے ہیں اور کسی روایت کی صحت جانچنے کے لیے انہے قرآن پر پیش کرنے کامطلب سنت احادیث یا ثانوی علمو ادب کو یکلخت رد کرنا نہیں ہوتا اور نالیاں کی شان میں گستاخی بلکہ رسول اللہ اور مہدی موعود کے حکم کی تعمیل میں مطابقت کے اصول کااطلاق ہر اس چیز کے لیے واجب ہے جوان کے نام سے ہم تک پہونچتی ہے اور صرف اور صرف وہی چیزوں کو قرآن مجید سےمتاصدم ہے اور کسی بھی طرح ان کا مطابقت کرنا ممکن نہیں بس وہی قابل رد ہو نگی کچھ اور بلکل نہیں

اور نیز جاننا چاہیے کہ ہر چند آیت قرآن کے لیے شان نزول ہے لیکن قرآن کے معنی مطلق ہیں یعنی ہر ایک کے لئے قرآن قیامت تک اس کے دین پر حجت ہے
( المعیار بندگیسید میاں خوندمیر صدیق ولایت رض)

ہم عالی جناب سید یعقوب شفیع مہدی صاحب بانی (SWM) کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں جنہوں نے ہماری ویب سائٹ پر دستیاب (conformity principle) کے عنوان سے انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے
 
home | for beginners | Tafsir | elibrary | hadith | naqliyat | conformity principle | articles | contact us | subscribe | unsubscribe | search